واضح رہے کہ حفیظ بلوچ کو 8 فروری 2022 کو اُس وقت جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا تھا جب وہ اپنے آبائی علاقے خضدار کے ایکنجی اکیڈمی میں بچوں کو پڑھا رہے تھے۔ اس ناروا اور غیر انسانی سلوک کے خلاف بلوچ طالب علموں نے ملک بھر کے مختلف شہروںمیں احتجاج ریکارڈ کیا اور بعد ازاں اُن کو چالیس دن بعد کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے بے بنیاد اور من گھڑت الزاماتکی بنا پہ منظرِ عام پر لایا اور آج حفیظ بلوچ تمام مصنوعی و جعلی الزامات سے کورٹ کی طرف سے باعزت بری ہو گئے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عطر من اللہ نے پنجاب اور اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں بلوچطلباء و طالبات کی نسلی ہراسمنٹ و پروفائلنگ کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس کو ایک غیر انسانی و گنھاؤنا جرم قراردیا۔ مگر اس کے باوجود تعلیمی اِداروں میں بلوچ طالب علموں کی ہراسمنٹ و پروفائلنگ تیزی کے ساتھ برقرار ہے۔ جہاں بلوچ طلباء کیپروفائلنگ کرکے انہیں جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ جو کہ بلوچ طلباء کی تعلیمی سفر میں سب سے زیادہ مشکل کا حامل ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ حفیظ بلوچ کی رہائی اور بلوچ طلباء کیلئے آواز اٹھانے پر ایڈووکیٹ عمران بلوچ اور ایڈووکیٹ ایمان مزاریسمیت تمام کرداروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور امید ظاہر کی آئندہ بھی بلوچ طلباء پر ہونے والے مظالم کے خلاف وہ اپنا بھرپور کردارادا کریں گے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ تمام لاپتہ افراد کی بحفاظت رہائی خوش آئند بات ہے اور ہم حکام بالا سے اپیل کرتے ہیں کہفیروز بلوچ سمیت دیگر بلوچ فرزندان کو عقوبت خانوں سے رہا کیا جائے۔ ملک کے تمام اداروں سے ایک بار پھر درخواست کی ہے کہبلوچ طلباء کی نسلی ہراسمنٹ و پروفائلنگ کے خلاف سنجیدگی سے ایکشن لیں اور فیروز بلوچ سمیت تمام لاپتہ بلوچ طلباء و طالباتکو باحفاظت بازیاب کیا جائے۔