بلوچ سٹوڈنٹ کونسل اسلام آباد کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ گورنمنٹ کالج وومن یونیورسٹی فیصل آباد میں 29 پورے بلوچستان جبکہ گوادر کی الگ سے 29 ریزرو نشستیں ہیں لیکن صوبائی ڈائریکٹوریٹ صرف 10 طالبات کو ہی نامزد کرتا ہےاور بلوچستان جہاں (فی میل ایجوکیشن) طالبات کی خواندگی کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اور اس طرح درجنوں طالبات کو تعلیم سے محروم رکھنا کسی جرم سے کم نہیں ہے۔
اور جو طالبات ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے ریزرو نشستوں پر سلیکٹ ہو کر آتی ہیں ان کو ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے فل برائٹ سکالرشپ دی جاتی ہے. جس میں ٹیوشن فیس سے لے کر ہاسٹل ڈیوز تک شامل ہوتے ہیں وہاں یونیورسٹی انتظامیہ طالبات سے ہاسٹل فیس کی ادائیگی کی مانگ کرتی ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان کے تعلیمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے 2013 میں حکومت پنجاب اور بلوچستان نے پنجاب کے مختلف اداروں میں بلوچستان کے طلبا کے لیے نشستیں مختص کیں تھیں، اور گورنمنٹ کالج وومن یونیورسٹی فیصل آباد میں بھی 29 پورے بلوچستان جبکہ صرف گوادر کے لیے 29 الگ سے نشستیں مختص کی تھیں جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ مختص نشستیں کم ہوتی گیئں۔ بلکہ جو طالبات مختص نشستوں پہلے سے زیر تعلیم تھیں، ان طالبات سے فیس کی مانگ کی گئی ہے اور طالبات کو مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے ہراساں کیا گیا جس کی وجہ سے دو طالبات تعلیم کو خیر آباد کہہ کر واپس اپنے آبائی گاؤں چلی گئی۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے سے زیر تعلیم طالبات تیسرے سمسٹر تک پہنچ چکی ہیں مگر نہ تو ان کی رجسٹریشن کی گئی اور نہ ان کے رزلٹ اشو کیے گئے۔
سیکڑوں میل کا سفر طے کر کے بلوچستان کے طلبہ پنجاب میں حصول تعلیم کی غرض سے پہنچتے ہیں اور پنجاب میں بلوچستان کے طلبا کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے. کبھی انفارمیشن کے نام پے پروفائلنگ تو کبھی ہراساں کر کے طلباء کو ذہنی اذیت کا شکار بنایا جاتا ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا ہے کہ ہم سیاسی و سماجی حقوق کے علمبرداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچستان کے طلباء کے مسائل کا حل نکالاجائے اور طلباء کی پروفائل بند کی جائے۔تاکہ طلباء اس ذہنی اذیت سے نجات حاصل کر کے تعلیم حاصل کر سکیں۔