پریس ریلیز 10/11/2022

پریس ریلیز 

آج انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے اور اس احتجاجی مظاہرے کی توسط سے ہم اس امر کی جسارت کریں گے کہ بلوچستان میں دہائیوں سے انسانی حقوق کی پامالی  تسلسل کیساتھ کیجارہی ہے ۔ جہاں بلوچ طلباء، سماجی کارکن، صحافی، اور دیگر افراد حتیٰ کہ عورت اور بچے بھی اس شر سے  محفوظ نہیں ہیں. انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر فوری توجہ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 

جناب صحافی حضرات

بلوچ طلباء کو لاپتہ کرنا، اُنہیں مختلف زرائع سے مسلسل ہراساں کرنا اب ایک واضح ریاستی پالیسی بن چکی ہے. ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں سے بلوچ طلباء کا جبری طور پر لاپتہ ہونا بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اور ایسے واقعات اب بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں روزانہ کا معمول بن چکے ہیں۔ جہاں یکم نومبر 2021 کو سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ یونیورسٹی آف بلوچستان کے  ہاسٹل کے احاطے سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے تھے، اور اب تک وہ منظرِ عام پہ نہیں لائے گئے۔  فیروز بلوچ، جو بارانی زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کا طالبعلم ہے، اس کو راولپنڈی میں بارانی زرعی یونیورسٹی کے احاطے سے  جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ 7 ماہ مکمل ہونے کے باوجود وہ تاحال بازیاب نہ ہو سکے۔ سعود ناز بلوچ جو کہ ایک کمسن طالب علم ہے جنہیں 25 اکتوبر 2022 کو جبری طور پر لاپتہ کرکے نامعلوم مقام پہ منتقل کردیا گیا۔ یاد رہے دو روز قبل کمپیوٹر سائنس کے طالب علم نورخان بلوچ کو کوئٹہ کے نواحی علاقے عیسیٰ نگری سے جبری طور پہ لاپتہ کرکے نامعلوم مقام منتقل کر دیا گیا جن کی تا حال کوئی معلومات حاصل نہ ہو سکی ۔

معزز صحافی حضرات

بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک نہ رُکنے والا سلسلہ جاری ہے. جہاں بچے، بوڑھے، طلباء اور حتیٰ کہ عورتیں بھی محفوظ نہیں۔ اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو 2019 کو بلوچستان کے علاقے ضلع آواران سے بلوچ ماؤں اور بہنوں کو جبری طور پہ لاپتہ کیا گیا تھا، جنہیں بعد ازاں منظرِعام پہ لاکے رہا کیا گیا۔ رواں سال 27 اپریل کو ضلع پنجگور سے شاہ بی بی ولد سُھراب کو اُن کی بچیوں سمیت لاپتہ کیا گیا، جنہیں بعد ازاں بازیاب کیا گیا۔  درجنوں ایسے واقعات اس امر کی تصدیق کرتے ہے کہ جبری طور پہ گمشدہ افراد کے لواحقین کو احتجاج جیسے بنیادی حق اور انہیں مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے پرامن جدوجہد سے دستبردار کرنیکی کاوشیں بھی کیجارہی ہے . اور اُنہیں ڈرامہ کر کےکراچی، کوئٹہ، اور اسلام آباد سمیت پورے ملک میں لاپتہ افراد کے لواحقین کو احتجاجی مظاہروں میں تذلیل کرنا اور اُنہیں تشدد کا نشانہ بنانا، بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا واضح ثبوت ہے

معزز صحافی حضرات 

بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی اور پروفائلنگ کو لیکر بلوچ طلباء نے انصاف کے تمام دروازوں کو دستک دی لیکن بدقسمتی سے ہمارے خدشات کو دور نہیں کیا جاسکا. بلوچ طلباء نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا جہاں بلوچ طلباء کو جبراً لاپتہ کرنے اور انہیں ہراساں کرنے کے خلاف ایک عدالتی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا، لیکن بدقسمتی سے یہ کمیشن بھی ہمیشہ کی طرح بنائے گئے کمیشنز کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے مایوسی کے سوا کچھ نہ دے سکا، بلکہ جب سے کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے مزید بلوچ طلباء اور دیگر افراد کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا جارہا ہے. انصاف کے تمام دروں کو دستک دینے کے باوجود شنوائی نہ ہونے سے بلوچ طلباء کا ریاستی نظامِ انصاف سے یقین اُٹھ چکا ہے، اب مزید عدلیہ اور کمیشنز کے دھوکے اور فریب کی جانب راغب نہیں ہو سکتے. 

معزز صحافی حضرات

10 دسمبر انسانی حقوق کے عالمی دن کے اس احتجاجی مظاہرے کی مناسبت سے ہم تمام عالمی انسانی حقوق کے تنظیموں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان کے تمام بُنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سختی سے نوٹس لیں، اور بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنا مؤثر کردار ادا کریں. 

 بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد 

Post a Comment

Previous Post Next Post